Alfia alima

Add To collaction

تین عورتیں

تین عورتیں
تین عورتیں ایک ریلوے لائن کے کنارے چلی جارہی تھیں۔ کس مقام پر؟ کس ریلوے لائن کے کنارے؟ ان کا مذہب کیا تھا؟ ان کی ذات کیا تھی؟ یہ سب تفصیل غیر ضروری ہے۔ 

تین عورتیں! 

ایک نوجوان سندری تھی۔ اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔ اس کے سینہ میں ابھار، اس کی چال میں والہانہ پن۔ 

ایک ماں تھی۔ اس کی گود میں ایک بچہ تھا۔ لال لال بوٹی سا سات دن کا بچہ۔ بار بار ماں اپنے لال کی طرف محبت بھری نگاہ سے دیکھتی تھی اور اس کو بھینچ کر کلیجے سے لگالیتی تھی، گویا کسی آنے والے خطرے سے بچارہی ہے۔ 

ایک بھکارن تھی۔ اس کی ساڑھی کا رنگ کسی زمانے میں سفید رہا ہوگا۔ اب مٹی اور پسینہ سے اتنی میلی ہوگئی تھی جیسے مدتوں کیچڑ میں پڑی رہی ہو۔ اس کی ساڑھی کسی زمانے میں ساڑھے پانچ گز کی ہوگی۔ اب تو پلو پھٹتے پھٹتے وہ مشکل سے تین گز رہ گئی تھی۔ اور تن ڈھانکنے کے لیے بھی کافی نہ تھی۔ اس کے بال گرد سے اَٹے ہوئے تھے اور نکیلے پتھروں نےاس کے پاؤں زخمی کردیے تھے۔ 

تین عورتیں ایک ریلوے لائن کے کنارے چلی جارہی تھیں۔ 

تین عورتیں! 

دور جہاں ریلوے لائن کی دونوں چمکتی ہوئی پٹڑیاں ایک لمبی لکیر بن کرآسمان میں گم ہوگئی تھیں۔ ایک چھوٹا سا کالا نقطہ نظر آیا۔ ہوا کے جھونکے کے ساتھ ریلوے انجن کی سیٹی کی دھیمی آواز آئی۔ 

سیٹی کی آواز سنتے ہی بھکارن چوکنی ہوگئی۔ وحشت اور پریشانی کے بجائے اس کے چہرے پر ایک خوفناک ارادے کی جھلک نظر آئی۔ ایک سیکنڈ وہ ٹکٹکی لگائے سامنے آسمان کی طرف دیکھتی رہی۔ جہاں چھوٹا سا کالا نقطہ نظر آرہا تھا، پھر وہ جلدی سے ایک پٹڑی پھلانگ کر دونوں پٹڑیوں کے درمیان چلنے لگی۔ 

نوجوان سندری اور بچے کی ماں اپنی ساتھن کے چہرے پر ایک خوفناک ارادے کی جھلک دیکھ کر پریشان ہوگئیں، جیسے ہی بھکارن چھلانگ مار کر پٹڑیوں کے درمیان آئی اس کے ساتھ ہی یہ دونوں بھی آگئیں۔ 

’’آخر تیرا ارادہ کیا ہے؟‘‘ ماں نےبھکارن سے پوچھا۔ مگر اس کے لہجے سے معلوم ہوتا کہ یہ سوال غیرضروری ہے۔ 

’’تو خوب جانتی ہے۔‘‘ بھکارن نے لاپرواہی سے جواب دیا اور برابر سامنے آسمان کی طرف نظرجمائے دیکھتی رہی۔ اب وہ چھوٹا سا کالا نقطہ اتنا چھوٹا نہ رہا تھا۔ 

’’کیا پاگل ہوگئی ہےتو؟‘‘ نوجوان سندری نے ایسے لہجے میں کہا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ دفعتاً اس کو ایک بہت بڑے خطرے کا احساس ہوا ہے۔ 

بھکارن بڑے بڑے قدم بڑھائے چلی جارہی تھی اور دوسری دونوں عورتوں کو اتنا تیز چلنا مشکل معلوم ہورہا تھا مگر وہ بھی کسی نہ کسی طرح اس کا ساتھ دیے جارہی تھیں۔ 

’’پاگل! اور میں؟‘‘ بھکارن قہقہہ مار کر اس بُری طرح سے ہنسی کہ نوجوان سندری اور ماں دونوں ڈر گئیں۔ ’’پاگل میں ہوں یا تم جو اب تک زندگی سے انصاف کی آس لگائے بیٹھی ہوئی ہو؟ آخر ہمیں زندہ رہنے کی کوئی وجہ ہی کیا ہے؟ میں تو سمجھتی ہوں کہ اِس زندگی سے موت ہزار درجہ بہتر ہوگی۔‘‘ 

نوجوان سندری اتنی آسانی سے بازی ہارنے والی نہ تھی۔ ’’مگر سوچو تو میری جوانی کا تو خیال کرو۔ عورت عمر میں ایک بار ہی تو جوان ہوتی ہے۔ جب بھی زندگی کا لطف نہ اٹھایا تو۔۔۔‘‘ 

’’جوانی!‘‘ بھکارن نے حیرت سے بات کاٹتے ہوئے کہا، ’’جوانی! وہی جوانی جس کی قیمت چار آنے ہے۔ وہی جوانی جس کو ایک خود غرض مرد نے اپنی میٹھی باتوں سے لوٹ کر تمہیں ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا! وہی جوانی جس کو تم روز بازار میں بیچنے پر مجبور ہو! ہر پولیس کے سپاہی کے ہاتھ! ہر ریل کے بابو کے ہاتھ! ہر آوارہ شرابی کے ہاتھ جو چونی تمہارے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے! آخ تھو ہے ایسی جوانی پر۔‘‘ 

اب ماں کی باری تھی۔ اس نے اپنے بچے کی طرف دیکھا اور گویا اس کا سہارا پاکر بھکارن سے بحث کرنےکے لیے تیار ہوگئی۔ ’’مگر میرا بچہ۔ آخر اس غریب نے کیا قصور کیا ہے کہ اس کو موت کے حوالے کردوں۔ اس کی خاطر تو مجھے زندہ رہنا ہی ہوگا۔ خواہ کتنی ہی مصیبت کیوں نہ جھیلنی پڑے۔‘‘ اور پھر بے اختیار بچے کو چھاتی سے لگاکر، ’’میرا بچہ!‘‘ 

’’میرا بچہ!‘‘ بھکارن کی آواز میں اس قدر طنز اور حقارت تھی کہ ماں بے زبان ہوگئی۔ ’’ارے یہ گوشت کا لوتھڑا جس کو تو گلے سے چمٹائے پھرتی ہے۔ یہ دنیا کی بے انصافی سماج کے ظلم کا جیتا جاگتا اشتہار۔ تیری تباہی اور بربادی کا ذمہ دار۔ آخر یہ بڑا ہوکر کیا کرے گا۔ لاٹ صاحب بنے گا یا لکھ پتی۔ اس ملک میں بھک منگوں کی کمی نہیں ہے! آخر کیوں نہ پھینک دیا اس کو اس کے باپ کے دروازے پر۔ پالتا وہ بزدل کمینہ اپنے گناہ کی یادگار کو۔‘‘ 

ماں جلدی سے بولی، ’’نہیں۔ نہیں۔ ان کو کچھ مت کہو۔‘‘ اس ایک لفظ ’’ان ‘‘ میں عجیب پریم، عجیب لگاوٹ کی چاشنی تھی اور اس کو زبان سے نکالتے وقت ماں کی نگاہ نویلی دلہن کی طرح شرم سے جھک گئی۔ ’’ان کو کچھ مت کہو۔ وہ اپنے ماں باپ کے خیال سے مجبور تھے۔‘‘ 

بھکارن غصے کے مارےآپے سے باہر ہوگئی۔ چھوٹا سا کالا نقطہ اب کافی بڑا ہوگیا تھا اور ہر لمحہ قریب ہوتا جارہا تھا۔ ریل کی گڑگڑاہٹ سے بھی بلند اس کی آواز سنائی دی۔ ’’ماں باپ کے خیال سے یا جائداد کے خیال سے! اور تمہارے ماں باپ کی مامتا کہاں گئی تھی۔ جب انہوں نے مہاوٹوں کی کالی رات میں تمہیں گھر سے نکال دیا اس ڈر سے کہ تمہاری حالت ظاہر ہونے پر سماج کیا کہے گی۔‘‘ 

یہ کہہ کر بھکارن سامنے آنے والی ریل کی طرف بے تحاشا لپکی اور نوجوان سندری اور ماں دونوں اس کو روکنے کے لیے ساتھ دوڑیں۔ 

ایک کالے دیو کی طرح ریل کا انجن پچاس میل کی رفتار سے چلا آرہا تھا۔ ایک ڈراؤنی سیٹی کی آواز گونجی۔ مگر بھکارن ذرا نہ جھجکی۔ 

انجن کے پہیے اس کی طرف لپک رہے تھے۔ 

ریل کے ایک درجے میں دو بڑی توند والے بیوپاری لاکھوں کی لین دین کا سودا کر رہے تھے۔ ان کے سامنے شراب کی بوتلیں رکھی ہوئی تھیں اور وہ گلاس پر گلاس چڑھا رہے تھے۔ نشہ میں دھت! اور دنیا کے دکھوں سے بے خبر۔ تیسرے درجے میں بھیڑ بکریوں کی طرح غریب اور کسان اور مزدور بھرے ہوئے تھے۔ ایک اندھا فقیر تنبورہ ہاتھ میں لیے ان کو بھجن سنا رہا تھا۔ یہ سب بھی نشہ میں دھت! اور خود اپنے دکھوں سے بےخبر! ایک پگلا کھڑکی کے قریب بیٹھا ہوا بڑبڑا رہا تھا، ’’رام رام ست ہے۔ دھت تیرے کی! رام رام ست ہے۔ دھت تیرے کی!‘‘ 

انجن کی سیٹی خوفناک طریقے سے کئی بار گونجی۔ اس کی گونج میں خطرے کا اعلان تھا۔ 

’’رُک جاؤ۔ رُک جاؤ۔‘‘ نوجوان سندری اور ماں نے آخری بار کوشش کرتےہوئے بھکارن سے التجا کی۔ 

میں نے فیصلہ کرلیا ہے۔ اگر تمہیں جان پیاری ہے تو تم ہٹ جاؤ۔ اس نے ان کو جھڑک دیا۔ 

’’مگر تم جان دے دوگی تو ہم کب زندہ رہ سکتے ہیں؟‘‘ ان دونوں نے جواب دیا۔ 

انجن کی بھیانک سیٹی ایک بار پھر گونجی۔ بالکل قریب۔ 

نوجوان سندری بھاگتے بھاگتے بے دم ہوگئی تھی۔ مگر اس نے لپک کر بھکارن کا دامن پکڑ لیا اور اس کو خطرے کےراستے سے ہٹانے کی کوشش کی۔ ماں نے ایک ہاتھ سے اپنے گود کے بچے کو سنبھالا اور دوسرے ہاتھ سے بھکارن کو ریل کی پٹڑی سے دھکا دے کر ہٹانا چاہا۔ 

مگر ان کی کوششیں بیکار ثابت ہوئیں۔ انجن اب اتنا قریب آگیا تھا کہ بھکارن ڈرائیور کا وحشت زدہ چہرہ دیکھ سکتی تھی۔ اس نے پورا زور لگاکر نوجوان سندری اور بچے کی ماں سے اپنا دامن چھڑا لیا۔ 

دفعتاً ریل کے ٹھیر جانے کے جھٹکے سے بیوپاریوں کانشہ ہرن ہو گیا۔ ان کی شراب کی بوتلیں اور گلاس جھن جھن کر کے فرش پر آرہے۔ تیسرے درجے میں اندھے فقیر کے ہاتھ سے تنبورہ گر گیا۔ اور بھجن گانا بھول گیا۔ ایک لمحے کے لیے اِس جھٹکے نے غریبوں اور کسانوں او رمزدوروں کا نشہ اتاردیا۔ مسافر اپنے اپنے درجوں سے اتر آئے اور انجن کی طرف چلے۔ 

’’کیا ہوا؟ کیا ہوا؟‘‘ 

’’کوئی ریل کے نیچے آگیا ہے۔‘‘ 

’’ارے یہ تو کوئی بھکارن ہے۔‘‘ 

’’مگر سندر اورنوجوان۔‘‘ 

’’اور بیچاری کا بچہ بھی تو مرگیا۔‘‘ 

’’کیا ہوا؟ کیا ہوا؟ کون مرگیا۔‘‘ 

’’ایک عورت ریل کے نیچے آگئی ہے۔‘‘ 

پگلا جو اب تک خاموش کھڑا تھا چیخ کر بولا، ’’ارے پگلو۔ ایک عورت نہیں۔ تین عورتیں تین۔‘‘ اور پھر بڑبڑانے لگا۔ ’’رام رام ست ہے! دھت تیرے کی!‘‘ 

   1
0 Comments